پاکستان میں خراب ہوتا ہوا نظام صحت اکثر بحث کا موضوع رہتا ہے اور عوام حکومتی غفلت کے شاکی نظر آتے پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح دارالحکوم...
پاکستان میں خراب ہوتا ہوا نظام صحت اکثر بحث کا موضوع رہتا ہے اور عوام حکومتی غفلت کے شاکی نظر آتے پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے سرکاری ہسپتالوں میں روزانہ سینکڑوں مریض علاج کے لیے قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ پمز ہسپتال میں صورتحال اس حد تک سنگین ہوتی ہے کہ ٹوکن حاصل کرنے کے لیے بھی مریضوں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مریضوں اور ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں میں سہولیات اور عملے کی کمی نے علاج کرانے کو ایک اذیت ناک تجربہ بنا دیا ہے۔ادھر نجی ہسپتالوں کی صورتحال اس کے برعکس ہے، جہاں علاج تو بہتر ہوتا ہے مگر اخراجات عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے نجی پسپتالوں میں معمولی علاج کے لیے بھی ہزاروں روپے وصول کیے جاتے ہیں اور اگر کسی مریض کو کچھ دن کے لیے ہسپتال میں داخل ہونا پڑے، تو بل لاکھوں روپے بنتا ہے۔ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحت کے شعبے کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ حکومت کی برف سے کم تر ترجیح اور ناکافی بجٹ ہیں۔ سابق مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق ملک میں صحت پر مجموعی قومی پیداوار کا صرف ایک فیصد خرچ کیا جاتا ہے، جو کہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ ان کے بقول جب تک صحت کو بنیادی آئینی حق تسلیم نہیں کیا جاتا اور پالیسی کی سطح پر بنیادی اصلاحات نہیں لائی جاتیں، سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا، ''کوئی حق تب ہی قابل عمل ہوتا ہے، جب اسے آئین میں بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جائے۔‘‘ ملک کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی لمبی قطاریں ایک عام منظر ہوتی ہیں، جہاں ایک ہی کاؤنٹر پر سینکڑوں لوگ ٹوکن کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔ پمز ہسپتال میں یہی صورتحال دیکھی گئی، جہاں صرف ایک اہلکار سینکڑوں مریضوں کو نمٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔ علاج کے لیے آئے لوگوں کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج مفت ضرور ہے، مگر سہولیات اور عملے کی کمی کے باعث زیادہ تر لوگ مجبوراﹰ نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں علاج کے اخراجات عام آدمی کی پہنچ پاکستان میں صحت کو آج تک آئینی یا ایک بنیادی انسانی حق تسلیم نہیں کیا گیا، جب کہ تعلیم کو بھی اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہی یہ حیثیت حاصل ہوئی۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف پر دستخط کر رکھے ہیں، جن کے تحت صحت کی سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر اس سمت میں واضح پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کہتے ہیں کہ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 70 فیصد مریض نجی ہسپتالوں سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ سرکاری ہسپتالوں سے انہیں خاطر خواہ سہولیات نہیں ملتیں۔ صحت پر خرچ ہونے والی کل رقم کا تقریباً 55 فیصد عوام اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں، جس سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہیلتھ کارڈ اسکیم نے جزوی طور پر سہولت فراہم کی ہے، تاہم پائیدار نظام کے لیے نجی شعبے کو مؤثر طریقے سے صحت کے شعبے کے قومی ڈھانچے میں شامل کرنا ضروری ہے۔ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ غیر سرکاری ادارے اس خلا کو کسی حد تک پر کر رہے ہیں۔ انڈس ہسپتال، الخدمت اور شوکت خانم جیسے ادارے مفت یا کم لاگت علاج فراہم کر رہے ہیں، جو ریاستی نظام کی کمزوری کے مقابلے میں امید کی ایک کرن ہے۔ تاہم ان کے نزدیک جب تک پاکستانی حکومت صحت کو آئینی طور پر بنیادی انسانی حق تسلیم نہیں کرے گی اور اپنی مالی اخراجات کی ترجیحات میں شامل نہیں کرے گی، ملک میں مساوات پر مبنی مؤثر نظام صحت قائم نہیں ہو سکے گا۔
کوئی تبصرے نہیں