بانو کے بعد حافظ قرآن سدرہ بھی قتل از۔۔۔ ظہیرالدین بابر بلوچستان میں اپنے بھائی کی گولی کا نشانہ بنے والی بانو کے قتل کی گونج ابھی تھمی...
بانو کے بعد حافظ قرآن سدرہ
بھی قتل
از۔۔۔ ظہیرالدین بابر
بلوچستان میں اپنے بھائی کی
گولی کا نشانہ بنے والی بانو کے قتل کی
گونج ابھی تھمی نہیں تھی کہ راولپنڈی کی فوجی کالونی میں حافظ قرآن سدرہ کو غیرت
کے نام پر قتل کردیا گیا ، مقتولہ سدرہ کا قصور محض اتنا تھا کہ پہلے خاوند کی
طلاق کے بعد اس نے اپنی مرضی سے دوسری
شادی کرلی ، اس "جرم عظیم" پر جرگہ بیٹھا اور پھر بانو کی طرح سدرہ کو
بھی قتل کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا ، بلوچستان اور روالپنڈی میں ماری جانے والی خواتین
کے کیسز میں ایک مماثلت بہرکیف موجود ہے وہ یہ کہ انھوں نے اپنے خونی رشتوں پر اعتماد کیا جنھوں نے بعدازاں ان ہی قاتلوں
میں اپنا نام لکھوایا ، تشویشناک یہ ہے ملک میں آئین اور قانون ہونے کے باوجود
جرگہ سسٹم عملا ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہا
ہے، ناجانے بانو اور سدرہ کی طرح پاکستان میں کتنی ہی خواتین اب تک قتل کردی گیں جن
کی خبر میڈیا تک نہ پہنچ پایئں ، دین
اسلام میں انسانی جان کی حرمت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ کہا گیا کہ کسی
ایک بے گناہ انسان کی جان کو بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانا اور کسی ایک بے
گناہ انسان کا قتل گویا پوری انسانیت کا قتل ہے ، اس پس منظر میں ہونا تویہ چاہیں
تھا کہ ہماری نام نہاد مذہبی جماعتیں اور شخصیات آگے بڑھ کر ایسے ظلم وعظیم کی
مذمت کرتیں مگر باجوہ ایسا نہ ہوسکا، سوال یہ ہے کہ درپیش مسلہ کا حل ہے ، جواب ہے کہ پاکستانی سماج کو کمزور
طبقات کی عزت ، جان اور مال کو تحفظ دینے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ بیدار کرنے
کی ضرورت ہے ، مہذب ملکوں کی تاریخ بتاتی
ہے کہ جب معاشرہ بیدا ہوتا تو اس کا اثر انتظامیہ ، عدلیہ حتی کہ رائے عامہ پر اثر
کرنے والے طبقات پر بھی محسوس ہوتا ہے، مجھے اور آپ کو بس اپنے حصہ کی شمع جلانی
ہے ، بعقول احمد فراز
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں
بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے
جاتے
کوئی تبصرے نہیں