افغان طالبان کو سبق سیکھانا ضروری تھا ؟ از۔۔ ظہیرالدین بابر اففان طالبان کی جانب سے ہماری سیکورٹی فورسز پر بلاجواز فائرنگ کا پاکستا...
افغان
طالبان کو سبق سیکھانا ضروری تھا ؟
از۔۔ ظہیرالدین بابر
اففان طالبان کی
جانب سے ہماری سیکورٹی فورسز پر بلاجواز فائرنگ کا پاکستان کی جانب سے بھرپور جواب
دینا یقینا سمجھ میں آنے والی بات ہے, یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ کابل میں طالبان
حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی
کارروائیوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے
تسلسل کے ساتھ طالبان حکومت سے کہا جاتا رہا کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کارندوں کو
روکے کہ وہ سرحد پر دہشت گرد کاروائیوں سے باز رہیں مگر افسوس صد افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ سچ تو یہ ہے کہ افغان طالبان اور
کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مکمل طور پر نظریاتی ہم آہنگی ہے جو ٹی ٹی پی کے قیام سے لے
کر اب تک نہ صرف موجود ہے بلکہ پھل پھول رہی ہے۔ مثلا دونوں پرتشدد مسلح گروہ جہاد کی ایسی تعریف پر یقین رکھتے ہیں جس میں معصوم اور بے گناہوں کا
قتل عام ہرگز ہرگز معیوب نہیں سمجھا جاتا، شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے طول وعرض میں
میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ ہزاروں بے گناہوں کا قتل عام کیا
جاچکا مگر افغان طالبان کی جانب سے مذمت کےدو لفظ تک نہیں بولے گے۔ اس پس منظر میں حالیہ دنوں میں
پاکستان نے اپنی پالیسی میں نمایاں تبدیلی
کرتے ہوئے کابل کو بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کیا ، ادھر طالبان وزیر خارجہ ملا
متقی کا طویل ترین دورہ بھارت بھی اسلام
آباد کو پیغام دے گیا کہ افغانستان اب اعلانیہ پاکستان دشمنوں کے ساتھ جا کھڑا ہوا ہے۔اب پاکستان کی
جانب سے طالبان کی ہر شرپسندی کا بھرپور جواب دیا جارہا ہے، بعض مبصرین کا خیال ہے
کہ طالبان قیادت نے پاکستان کی قوت اور
صبر کا اندازہ غلط لگایا جس کی قیمت اب انھیں چکانی پڑ رہی ہے، تازہ پیس رفت یہ
ہوئی کہ افغانستان کی جانب سے سیزفائر کی
درخواست پاکستان نے قبول کرلی ہے، 48 گھنٹوں کے اس سیز فائر کے پچھے سعودی عرب اور
قطر کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ، مستند خبر یہ بھی ہے کہ افغان طالبان اب پاکستان
کے ساتھ بات چیت کے زریعے تمام تنازعات حل کرنے پر کسی نہ کسی حد تک آمادہ ہوچکے۔
کوئی تبصرے نہیں