یہ خیبر پختونخواہ ہے : مدرسہ میں تشدد یا جنسی درندگی؟‘‘ اس ملک کے تعلیمی ادارے، چاہے وہ اسکول ہوں یا مدارس، کبھی روشنی کے مینار ہوا کرتے ت...
یہ خیبر پختونخواہ ہے : مدرسہ میں تشدد یا جنسی درندگی؟‘‘
اس ملک کے تعلیمی ادارے، چاہے وہ اسکول ہوں یا مدارس، کبھی روشنی کے مینار ہوا کرتے تھے۔ ماں باپ اپنے بچوں کو اطمینانِ دل کے ساتھ وہاں بھیجتے تھے کہ یہاں انہیں علم، تہذیب، دین، شرافت اور اخلاق کے زیور سے آراستہ کیا جائے گا۔ مگر اب وہی ادارے بسا اوقات ظلم کے اڈے، بے حسی کے گڑھ اور سفاکی کے گواہ بن چکے ہیں۔ سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ کے علاقے چلیار میں واقع مدرسے میں ایک 14 سالہ معصوم طالبعلم فرحان کی جان، ’’استاد‘‘ نامی درندے کے ہاتھوں چلی گئی۔ ایک ایسی جان جسے پروان چڑھنا تھا، کتابوں سے علم کشید کرنا تھا، اور کسی دن اپنے ماں باپ کا سہارا بننا تھا۔ لیکن وہ سہارا آج تختہِ غُسل پر لیٹا ہے۔فرحان کوئی طاقتور سیاست دان کا بیٹا نہ تھا۔ وہ سوات سے باہر کسی غریب خاندان کا چراغ تھا، جو مدرسے میں مقیم تھا۔ اپنے ماں باپ کے خوابوں کا سرمایہ، ان کی آنکھوں کا نور، ان کی دعاؤں کا محور۔ لیکن کیا فرحان کی چیخیں صرف مدرسے کی چار دیواری تک محدود تھیں؟ نہیں! یہ چیخیں اس سماج کی سماعت کو چیر چیر کر گزر گئیں۔ لیکن افسوس! ہم سب نے پھر بھی کانوں میں روایتی روئی ٹھونس لی۔
اس واقعے کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو لوگ تڑپ اٹھے۔ وہ منظر، وہ اذیت، وہ بربریت جس میں فرحان کو مارا جا رہا تھا، وہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی تھا۔ مگر شاید ہمارا ضمیر اب ویسی لرزشیں محسوس نہیں کرتا۔ ہم کچھ لمحے ہڑبڑا کر ردعمل دیتے ہیں، پوسٹس کرتے ہیں، ہیش ٹیگ چلاتے ہیں، اور پھر اگلی خبر میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ ظلم صرف فرحان کے ساتھ نہیں ہوا، یہ ہر اس معصوم کے ساتھ ہو رہا ہے جو ہمارے ملک کے نام نہاد دینی یا دنیاوی اداروں میں سیکھنے کی نیت سے بھیجا جاتا ہے۔ مدرسے یا اسکول کا استاد، ایک مقدس منصب ہے۔ مگر جب یہ منصب درندگی کی علامت بن جائے، جب استاد ’معلم‘ کے بجائے ’قاتل‘ بن جائے تو یہ صرف فرد کا نہیں، پورے نظام کا جرم ہوتا ہے۔فرحان کا جرم کیا تھا؟ شاید سبق یاد نہ کرنا، شاید بات نہ ماننا، شاید کسی بات پر ہنس دینا۔ لیکن کیا یہ جرائم تھے؟ کیا یہ سزائے موت کے قابل تھے؟ کیا تربیت اور تعلیم کا مطلب یہی رہ گیا ہے کہ اگر بچہ نہ سمجھے، تو اسے مار ڈالو؟
ہم سب جانتے ہیں کہ یہ پہلا واقعہ نہیں۔ مدرسوں میں بچوں پر تشدد کے درجنوں سانحات ہماری یادداشت میں محفوظ ہیں۔ مگر پھر بھی نہ ریاست نے سنجیدگی دکھائی، نہ علما نے اجتماعی فتویٰ دیا، نہ معاشرہ چیخا، اور نہ ماں باپ کو کسی محفوظ نظام کی ضمانت ملی۔
آج فرحان کے ماں باپ کی دنیا اجڑ گئی ہے۔ ایک غریب باپ، جو شاید محنت مزدوری کرتا ہو، ایک مجبور ماں، جو دن رات دعا کرتی ہو، آج ان کے ہاتھ خالی ہیں، گود اجڑ گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قاتل کو سزا ملے گی؟ یا وہ بھی ماضی کے سانحات کی طرح ’’معافی تلافی‘‘ اور ’’صلح صفائی‘‘ کی نذر ہو جائے گا؟ کیا پھر ایک نیا فرحان مارا جائے گا؟ کیا پھر کوئی ویڈیو وائرل ہوگی؟ اور ہم صرف ہمدردی کے دو بول لکھ کر آگے بڑھ جائیں گے؟
مدرسے کی چار دیواری میں پیش آنے والا یہ واقعہ دراصل ایک بڑی سماجی، عدالتی اور تعلیمی ناکامی کی علامت ہے۔ ہم نے کبھی مدارس میں اصلاحات کی کوشش نہیں کی، نہ حکومتی سطح پر مؤثر نگرانی کا کوئی نظام بنایا، نہ اساتذہ کی تربیت کی، نہ اخلاقیات کو نصاب کا حصہ بنایا۔ نتیجہ یہ ہے کہ مدارس میں زیر تعلیم بچے اکثر خوف، دباؤ اور جسمانی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔ اور جب کوئی واقعہ رونما ہو بھی جائے، تو ’’دینی جذبات‘‘ کا لبادہ اوڑھ کر قاتلوں کو بچا لیا جاتا ہے۔آج ہم سب کو اجتماعی ضمیر کا سامنا ہے۔ اگر آج ہم فرحان کے لیے کھڑے نہ ہوئے، اگر آج ہم نے مدرسوں میں جسمانی تشدد پر مکمل پابندی اور قانونی سزاؤں کے اطلاق کا مطالبہ نہ کیا، تو یہ جرم ہمارے نام کے ساتھ بھی لکھا جائے گا۔
یہ مسئلہ صرف مدرسے کا نہیں، بلکہ ایک بچے کے انسانی حق کا ہے۔ وہ بچہ چاہے کسی اسکول میں ہو، مدرسے میں ہو، گھر میں ہو، یا یتیم خانے میں — اسے مارنے کا کسی کو حق نہیں! تعلیم و تربیت کے نام پر ظلم، کسی مذہب، کسی قانون، کسی اخلاقیات میں جائز نہیں۔حکومتِ پاکستان، بالخصوص خیبر پختونخوا کی انتظامیہ اور وفاقی وزارت مذہبی امور کو اس واقعے پر فوری اقدامات کرنے چاہییں۔ قاتل استاد کو نشانِ عبرت بنانا ہوگا، تاکہ دوسرے ’’معلم نما جلاد‘‘ سبق سیکھیں۔ مدارس میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے، اساتذہ کی نفسیاتی اسکریننگ اور تربیت کو لازم قرار دینے، اور جسمانی و ذہنی تشدد پر فوری سزا کے نظام کا نفاذ اب ناگزیر ہو چکا ہے۔
فرحان چلا گیا۔ وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ مگر اس کی چیخیں، اس کی آہیں، اور اس کا خون، ہم سب سے سوال کرتا ہے۔ کیا ہم اپنی خاموشی سے قاتل کے معاون ہیں؟ کیا ہم بس ایک اور وائرل ویڈیو کے منتظر ہیں؟ یا اب ہم واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں؟۔اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل ہمارے بچے بھی غیر محفوظ ہوں گے۔ یہ جنگ صرف فرحان کے انصاف کی نہیں، یہ ہر بچے کے تحفظ، ہر والدین کے سکون، اور ہر انسان کی انسانیت کی جنگ ہے۔آئیے، آج سے عہد کریں:
ہم ہر تعلیمی ادارے میں تشدد کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ہم ہر مدرسے سے مطالبہ کریں گے کہ وہ اخلاقی تربیت اور اساتذہ کی نگرانی کا نظام بنائیں۔
ہم حکومت سے تقاضا کریں گے کہ وہ قانون سازی کرے اور ’’مدرسہ ڈسپلن اینڈ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ‘‘ نافذ کرے۔ہم والدین کو اس بات کا شعور دیں گے کہ بچوں کی باتوں کو سنیں، ان پر اعتماد کریں، اور ان کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھیں تاکہ وہ کسی "زیادتی" کو چھپا نہ سکیں۔اور سب سے بڑھ کر، ہم فرحان کے لیے خاموش نہیں رہیں گے۔فرحان، تم اب ہمارے درمیان نہیں ہو، لیکن تمہاری درد بھری چیخیں ہمارے دلوں میں گونجتی رہیں گی۔ تم نے جاتے جاتے ہمیں جھنجھوڑ دیا، جھکائے گئے سروں کو اٹھنے پر مجبور کر دیا۔ تمہاری مظلوم موت، اس نظامِ جبر پر سوالیہ نشان ہے۔
ہم تمہیں بھولیں گے نہیں، فرحان!
ہم تمہارے قاتل کو سزا دلوائیں گے!
ہم ہر بچے کے تحفظ کی جدوجہد کریں گے!
کیونکہ تم صرف ایک بچہ نہ تھے،تم انسانیت کا امتحان تھے — جو ہم سب کو دینا ہے۔ فرحان کی موت محض ایک تشدد کا واقعہ نہیں ہو سکتا — مکمل، غیر جانبدار اور سائنسی بنیادوں پر تفتیش کی جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کہیں اسے جنسی زیادتی کا نشانہ تو نہیں بنایا گیا۔
انصاف کا تقاضا ہے کہ صرف قاتل کو نہیں، بلکہ ہر اس عمل کو بے نقاب کیا جائے جس نے اس معصوم کو قبر تک پہنچایا۔
فرحان کے ہم جماعت (جو شدید صدمے میں تھا) نے بتایا تھا کہ فرحان چند دن غیر حاضر رہا تھا اور ابھی واپس آیا تھا، اساتذہ نے اسے بہت زور سے مارنا شروع کر دیا، بعد میں اسے ایک کمرے میں لے جا کر مار پیٹ جاری رکھی، مجھے پانی لانے کے لیے بلایا گیا، اُس نے تھوڑا سا پانی پیا، پھر اپنا سر میری گود میں رکھ دیا، اور خاموش ہو گیا۔
اسسٹنٹ کمشنر خوازہ خیلہ نے چلیار میں مدرسہ سیل کر دیا ، ایف آئی آر میں نامزد دو ملزمان گرفتار ہو گئےہیں، تاہم مرکزی ملزم محمد عمر تاحال روپوش ہے۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں