Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

خورشید بیگم گوجرہ کالم

               قائد اعظم اور کردار سازی از۔۔۔خورشید بیگم گوجرہ   احساسِ اخوت کی بِنا قائد اعظم الفت کی محبت کی صدا قائد اعظم  ...

 



 

          

قائد اعظم اور کردار سازی

از۔۔۔خورشید بیگم گوجرہ

 

احساسِ اخوت کی بِنا قائد اعظم

الفت کی محبت کی صدا قائد اعظم

 

دو قومی نظریے کو دیا ملک کا پیکر

خوشیوں کا پیمبر بنا آلام میں رہ کر

 

             کسی ملک یا قوم کی کردار سازی اس کے قومی وقار کو بلند کرتی ہے۔ اس کے افراد کو نڈر، بے باک اور بے لوث قومی خدمت کے لئے تیار کرتی ہے۔ یہ کردار سازی والدین، تعلیمی نظام اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے انجام پاتی ہے۔ انگریز نے  1858 میں جب مسلمانوں سے اقتدار چھینا تو سب سے پہلے ان کا تعلیمی نظام ختم کیا ۔ اردو اور فارسی دونوں زبانیں جو ان کی مذہبی، تعلیمی اور تہذیبی نظام کے اظہار کا ذریعہ تھیں وہ بھی ختم کر دیں ۔ اس طرح مسلمانوں کی کردار سازی کے سرچشمے یوں ختم کر دہے کہ ان کی آئندہ نسلیں اپنی پہچان تک بھول جائیں . انگریز نے برصغیر میں جو نظام تعلیم رائج کیا اس کا مقصد اپنے مفادات کا تحفظ تھا ۔ قائد اعظم نے 24 مارچ 1948 کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں جلسہ تقسیمِ اسناد کے موقع پر اپنے خطاب میں اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ "برطانوی ہند میں مروج تعلیمی نظام کا مقصد بہترین تربیت یافتہ اور پڑھے لکھے کلرک پیدا کرنا تھا ۔ اس کے علاوہ ایک ایسی ذہنی سوچ پیدا کرنا تھا کہ عام آدمی جب بی ۔ اے ، ایم اے کر لے تو گورنمنٹ کی کوئی ملازمت تلاش کرے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگنے لگا۔

              قائد اعظم نے گاندھی جی کی  برائے تعلیم کی شدید مخالفت کی ۔ 3 فروری 1938 کو اینگلو عربیک کالج دہلی میں طلبہ یونین کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا "مسلمانوں کو ہندو تہذیب اپنانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ مجھے بھی ایسی ہی خواہش کی اجازت دی جائے کہ تمام مسلمانوں کو اردو سیکھنا چاہئے۔ یہ زبان ہی ہے جس کے ذریعے نظریات کی تشہیر ہوتی ہے۔ اگر آپ ہمیں ہندی سیکھنے پر مجبور کریں گے تو ہمارے بچے ہندی تہذیب سے سیراب ہو جائیں گے ۔ زبان خیالات کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ اگر آپ سب کے لئے آزادی چاہتے ہیں تو مسلمان غلامی کو کیوں برداشت کریں ؟"

             ذہن کی تعمیر میں ماں اور استاد کے کردار سے قائد اعظم بخوبی آگاہ تھے ۔ وہ مانتے تھے کہ ہر معاشرے میں یہی دو ماڈل کردار ہیں جن سے معاشرہ روشنی حاصل کرتا ہے اور اس کے افراد آزادانہ سوچنے اور عمل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سٹاف کی طرف سے 5 اپریل 1939 کو پیش کئے جانے والے ایڈریس کے جواب میں قائد اعظم نے فرمایا " کسی قوم کی تعمیر کے لئے دو اہم آلہ کار ہیں۔ ایک ماں اور دوسرا استاد - ہندوستان میں تدریس نے ایک یقینی نتیجہ ظاہر کیا ہے ۔ ہمارا دانشور طبقہ اندھا دھند روزگار حاصل کرنے والوں کی حیثیت سے فیکٹریوں میں تیار ہو رہا ہے۔ ان میں سے اکثر کے سامنے اہم نظریہ یہ ہے کہ اپنے پیشے میں آگے بڑھنا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ یا تو نوکر شاہی کے کیمپ میں یا کانگریس کے کیمپ میں اپنا کیرئیر تلاش کرتے ہیں۔ دانشوروں کے اذہان کی دوبارہ سمت بندی کی ضرورت ہے۔ ہم آج بھی پڑھے لکھے اشخاص پر بھروسہ نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے خود اعتمادی، اخلاقی، تہذیبی اور سیاسی خود آگاہی کے اصولوں پر گرفت نہیں رکھی ۔ کسی قوم کو کوئی چیز کبھی نہیں ملی جب تک کہ دانشور طبقہ قربانی کے لئے تیار نہ ہو۔"

            قائد اعظم نے کردار سازی میں خواتین کا اہم کردار بتایا ہے ۔ اسلامیہ کالج لاہور کی طالبات سے مارچ 1940 میں خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا " دنیا میں دو طاقتیں ہیں ایک کی ترجمانی تلوار کرتی ہے اور دوسری کی قلم ۔ ان دونوں کے مابین بڑا مقابلہ ہے۔ ایک تیسری طاقت ہے جو دونوں سے برتر ہے وہ عورت ہے ۔ یہ صرف اور صرف عورت ہے جو مرد کو بناتی ہے کہ وقت پڑنے پر کیسے اور کہاں تلوار اور قلم کو استعمال کرنا ہے۔ اس طرح عورت معاشرے کی تربیت میں اہمیت رکھتی ہے۔ "

            ذرائع ابلاغ کسی بھی معاشرے میں، کردار سازی میں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل اخبارات خبر رسانی کا مؤثر ذریعہ تھے جبکہ پریس پر ہندو اور انگریز کا قبضہ تھا- مسلمانوں کے اخبارات کی تعداد بہت کم تھی اور اُن کا دائرہ کار بھی محدود تھا ۔ اس طرح اہم معاملات میں نہ تو مسلمانوں کے خیالات کی ترجمانی ہوتی تھی اور نہ ہی ان کے مفاد سے متعلق درست خبریں اُن تک پہنچتی تھیں۔ لہذا اُن کے ذہن ہندو پروپیگنڈے سے پراگندہ ہوتے تھے ۔ قائد اعظم نے اس سمت بھی گہری دلچسپی لی ۔ ان کی کوششوں سے مسلمان ایک آزاد پریس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ اس طرح قائد اعظم نے مسلمانوں کی کردار سازی کا مکمل سامان مہیا کر دیا .

            قائد اعظم خو د بھی بلند کردار کے مالک تھے۔ آپ کی بے لوث ، بے باک اور مخلصانہ قیادت ہی تھی جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کر دیا ۔ جس کے نتیجے میں ہندو اور انگریز تقسیمِ ہند پر مجبور ہو گئے اور  دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوئی ۔ میں یہ وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ قومی زندگی کے ہر موڑ پر ایسے قائد کی اتباع ہمیں کامیابی و کامرانی سے ہم کنار کر سکتی ہے کیونکہ

 

تا  عمر  وہ  ہم  سب  کے  لئے رہنما  ہے

 یہ پاک وطن، پاک زمیں اس کی عطا ہے

 

آؤ   کہ  محبت  کی   نئی  شمعیں جلائیں

جو عہدِ وفا اس سے کیا تھا، وہ نبھائیں


کوئی تبصرے نہیں