Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

جاگیرداری وطن کا بوجھ   ✍️ از: عاکف غنی   پاکستان وجود میں آئے سات دہائیاں گزر گئیں، لیکن ہماری معیشت اور سیاست آج بھی اس جاگیردارانہ ڈھانچ...

جاگیرداری وطن کا بوجھ

 

✍️ از: عاکف غنی

 

پاکستان وجود میں آئے سات دہائیاں گزر گئیں، لیکن ہماری معیشت اور سیاست آج بھی اس جاگیردارانہ ڈھانچے کی قید میں ہے جو ہمیں مغلوں اور انگریزوں سے ورثے میں ملا۔ دیہات کا کسان آج بھی اپنی زمین پر اجنبی ہے، وہ زمین کا بیج بوتا ہے، ہل چلاتا ہے، پسینہ بہاتا ہے، مگر زمین کا مالک نہیں۔ جاگیردار، جو کبھی مغل بادشاہوں کی عطا کی بدولت اور کبھی انگریز سامراج کی نوازشوں کے طفیل اربوں روپے مالیت کی جاگیریں سنبھالے بیٹھے ہیں، آج بھی اسمبلیوں، وزارتوں اور اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو پاکستان کی جمہوریت کو یرغمال بنائے ہوئے ہے اور ہر زرعی اصلاحات کی کوشش کو ناکام بنا دیتا ہے۔

 

اسلام نے زمین کو اللہ کی امانت قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے

 

﴿وَهُوَ ٱلَّذِى جَعَلَكُمْ خَلَـٰٓئِفَ ٱلۡأَرۡضِ وَرَفَعَ بَعۡضَكُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجَـٰتٖ لِّيَبۡلُوَكُمۡ فِي مَآ ءَاتَىٰكُمۡۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ ٱلۡعِقَابِۖ وَإِنَّهُۥ لَغَفُورٞ رَّحِيمٞ﴾

(سورۃ الانعام، آیت 165)

 

اور رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

 

مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ

(سنن ترمذی، 1378)

 

پاکستان میں جاگیرداری کا نظام نہ صرف تاریخی طور پر غیر منصفانہ رہا ہے بلکہ شریعت اسلامیہ کے اصولوں کے مطابق بھی اس کی کوئی جواز نہیں۔ قرآن کریم میں یتیموں کے مال کے حوالے سے واضح حکم ہے:

 

﴿وَآتُوا ٱلۡيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَتَبَدَّلُوا ٱلۡخَبِيثَ بِٱلطَّيِّبِ وَلاَ تَأْكُلُوآ أَمْوَالَهُمۡ إِلَىٰٓ أَمْوَالِكُمْۗ إِنَّهُۥ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا﴾

(النساء: 2)

 

یہ دونوں دلائل واضح کرتے ہیں کہ زمین اور وسائل کی ملکیت صرف محنت کرنے والے افراد کی ہونی چاہیے، نہ کہ وہ جاگیردار جو زمین پر بغیر محنت قبضہ کرے اور لوگوں کو محروم رکھے۔ پاکستان کے بڑے جاگیردار خاندان جیسے مخدوم، لغاری، مزاری، چوہدری، بھٹو، گیلانی، مزمل، ٹوانہ، ٹالپر، جتوئی اور دیگر آج بھی اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہیں۔ جنوبی پنجاب سے سندھ تک اور بلوچستان کے قبائلی علاقوں تک یہ خاندان ہزاروں ایکڑ زمینوں کے مالک ہیں اور ان کی زمینوں پر کام کرنے والا کسان آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ یہی وڈیرے، سردار اور جاگیردار انتخابات میں ووٹ بنک کے مالک ہیں اور یہی نظام انہیں ہر دور میں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتا ہے۔

 

ہندوستان نے آزادی کے فوراً بعد بڑے پیمانے پر زرعی اصلاحات کیں اور جاگیرداری کا نظام ختم کر کے کسانوں کو ان کی زمین کا حق دلایا۔ فرانس میں 1789ء کے انقلاب نے بادشاہت کے ساتھ جاگیرداری کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور عوام نے اعلان کیا کہ زمین اب کسان کی ہے، جاگیردار کی نہیں۔ یہی لمحہ یورپ کے صنعتی سفر کی شروعات بنا۔ پاکستان میں مگر کہانی الٹی رہی۔ یہاں بڑے جاگیردار خود اسمبلیوں میں پہنچ گئے، قانون سازی کی اور ہر زرعی اصلاحات کو اپنے مفاد کی نذر کر دیا۔ ایوب خان، بھٹو، ضیاء الحق اور مشرف سمیت تمام حکومتیں انہی وڈیروں کے مفاد میں اصلاحات ناکام کرتی رہیں۔

 

جاگیرداری کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے کہ جاگیردار خود قانون ساز ہیں، عدالتوں میں اپنے مفاد کے لیے فیصلے کرواتے ہیں اور زرعی اصلاحات کے بل کو ناکام بنا دیتے ہیں۔ اگر پاکستان واقعی جاگیرداری کے خاتمے کی جرات کرے تو حالات یکسر بدل جائیں گے۔ سیاست سے وڈیروں اور چوہدریوں کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی، جمہوریت اپنے اصل معنی میں زندہ ہو گی اور لوگ خوف اور دباؤ سے آزاد ہو کر ووٹ ڈال سکیں گے۔ معیشت ترقی کرے گی کیونکہ زمین کا اصل مالک کسان ہوگا۔ جب کسان زمین کا مالک ہوگا تو وہ زیادہ محنت کرے گا، پیداوار بڑھے گی، غربت کم ہوگی اور ملک زرعی خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ سماج میں انصاف اور برابری آئے گی، غلامی کا رشتہ ٹوٹے گا اور دیہات کا انسان عزت کے ساتھ جیے گا۔ سب سے بڑھ کر پاکستان اسلامی اصولوں کے قریب تر ہو گا، جہاں زمین اللہ کی امانت اور محنت کش کی حقیقی ملکیت ہوگی۔

 

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ جاگیرداری اور استحصالی ڈھانچوں کو توڑ دیتی ہیں۔ اسلام نے ہمیں عدل اور محنت کی بنیاد پر معاشرہ قائم کرنے کا حکم دیا۔ دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، مگر پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں وہی جاگیردار، وہی مخدوم، وہی سردار اور وہی چوہدری ایوانوں پر قابض ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کبھی یہ جرات کرے گا کہ ان جاگیرداروں کے تسلط کو ختم کر کے کسان کو زمین کا مالک بنا دے؟ اگر یہ قدم نہ اٹھایا گیا تو جاگیرداری محض ماضی کی لعنت نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کی سب سے بڑی رکاوٹ بن جائے گی۔

 

کوئی تبصرے نہیں