Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

ام حسن کالم

سیلاب   تحریر#ام حسن (جلال پور جٹاں)                                           " سیلاب "پانی کے ایسے ریلوں کو کہتے ہیں جو ...



سیلاب

 

تحریر#ام حسن (جلال پور جٹاں)                                       

 

"سیلاب "پانی کے ایسے ریلوں کو کہتے ہیں جو دریاؤں کے بند ٹوٹنے،بادلوں کے پھٹنے یا برفانی گلیشئیر کے پگھلنے سے انسانی آبادیوں کو تہس نہس کر دیتہیں۔انسانوں،جانوروں،فصلوں اور رہائش گاہوں کو بہا لے جاتے ہیں۔پیشگی اطلاع مل جائے تو نقصان کم ہوتا ہے ورنہ پانی کے یہ ریلے سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔جس سیلاب کا ذکر اس تحریر میں ہونے جا رہا ہے۔وہ پانی کے سیلاب کا نہیں بلکہ موبائل فون کے بے جا استعمال کا سیلاب ہے جو پوری انسانیت کو بہائے لئے جا رہا ہے۔اس کی تباہی کاریاں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے سب اس کے پیچھے اپنے مال،وقت اور صحت حتیٰ کہ عزت تک کو اپنے ہاتھوں برباد کر رہے ہیں۔کوئی بھی آلہ یا ایجاد بذات خود برا نہیں ہوتا اس کا غلط اور ضرورت سے زیادہ استعمال اسے برا بناتا ہے۔ٹی وی اور ریڈیو کی ایجاد پر بھی لوگوں کا یہی رویہ تھا کہ دن رات بس یہی کام تھا کہ گھر دکان یا دفتر داخل ہوتے ہی پہلا کام ریڈیو یاٹی وی آن کرنا ہوتا تھا۔۔۔لیکن اب ۔۔۔اب تو موبائل فون ایک فوبیا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔اعلی معیار زندگی کے اظہار کے لئے مہنگے ترین آئ فون لیے جاتے ہیں۔پھر اس پر اپنا قیمتی وقت ضائع کیا جاتا ہے۔مردوں کو اپنی زمہ داریاں بہترین طریقہ سے ادا کرنے کی فکر ہے نہ خواتین کو ۔۔۔ضروری کام نپٹائے اور جلدی جلدی فون لے کر بیٹھ گئے۔۔۔اور کر کیا رہے ہیں فون پر۔۔بے کار لھو و لعب سے بھر پور ڈرامے،فلمیں،ریلیں،وی لاگ اور ویڈیوز  دیکھی جا رہی ہیں۔بھئ دیکھنے والے کیوں نہ دیکھیں بنانے والے ایک سے بڑھ کر ایک بے حیائ سے بھر پور کنٹینٹ بنا رہے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ جائے حادثہ پر زخمیوں کو جلد از جلد ہسپتال پہنچانے کی بجائے فوٹوز اور ویڈیوز بنانے کی طرف توجہ رہتی ہے۔لڑائ جھگڑا چھڑانے صلح کرانے، بہتری کی تدبیر،اوراشتعال کم کرنے کی بجائے مختلف ایپس پر اپنے نام کا جھنڈا لگانے کی جدو جہد کا ہونا خون کے آنسو رلاتا ہے۔کیا ہو گیا ہے لو گوں کو؟ ۔۔۔امت مسلمہ تو ایک جسم کی مانند ہے جس کے ایک حصے میں درد کو دوسرا حصہ نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ پوری توانائی سے اسے دور کرنے کی دوڑ بھی لگاتا ہے۔سیلاب،زلزلے یا کسی بھی متعدی بیماری کے دنوں میں بھی افراد کے یہی حالات ہوتے ہیں۔ان حالات سے پتہ چلتاہے کہ ہمارے لوگوں کی تعلیم و تربیت اور شعور کی کتنی کمی ہے۔موبائل فون کا درست استعمال سکھایا جانا انتہائی ضروری امر ہے۔خصوصا نوجوانوں کی باقاعدہ کلاسز کی ضرورت ہے ۔نوجوانوں کی طاقت و توانائی کا رخ مثبت و فلاحی کاموں کی طرف موڑنے کے لئے ان کی تربیت کا کا م ضروری ہے لیکن مجال ہے کہ ہمارے نوجوان سوائے چند کے کوئ تخلیقی یا پیداواری کام کر لیں۔کرنے والے کر بھی رہے ہیں لیکن بہت کم تعداد میں۔۔ویسے بھی علمی،معلوماتی پروگرام دیکھنا کون چاہتا ہے۔لہذا ویور شپ بڑھانے کے لئے اخلاقی حدود کو پھلانگ کر بے سرو پا پروگرام بنائے جا رہے ہیں۔جن میں جھوٹ،فریب،دھوکہ،اور فحش کی بھرمار ہے ۔لوگ ہیں کہ اندھا دھند دیکھے چلے جا رہے ہیں۔نتیجتا ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔۔۔وہی معاشرہ جو کبھی اپنے اخلاص ،مروت ،ایثار اور حق کا بول بالا کرنے والا تھا۔اب بدکرداری کے سیلاب میں بہہ چکا ہے۔ الا ماشاءاللہ چند ہی لوگ ہیں جو اس کا درست،مفید اور معتدل استعمال کر رہے ہیں۔یہ وہی دینی لوگ ہیں جو ان حالات میں بھی موبائل فون کو دین اسلام کے زریں اصولوں کے فروغ کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔الخدمت اور اس جیسی بے لوث تنظیموں کے فلاحی کاموں کی بدولت ہی معاشرہ سانس لے رہا ہے


کوئی تبصرے نہیں